Team Ranking
|
|||||||||||||||||||||||||||||||||
Bowlers Ranking
|
|
Team Ranking
|
|||||||||||||||||||||||||||||||||
Bowlers Ranking
|
|
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر پر ملا جلا ردِّ عمل سامنے آ رہا ہے۔
عمران خان کی تقریر کے بعد بہت سے لوگوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بار انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے کشمیر سے متعلق حالیہ اقدامات کو عالمی دنیا کے سامنے رکھا گیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی مخالف جماعتوں میں سے زیادہ تر کی کشمیر پر پالیسی کافی واضح ہے کہ اگر پارلیمان اس بارے میں کوئی قدم اٹھاتی ہے تو وہ اس پر حکومت اور ریاست کے ساتھ ہوں گے۔ لیکن جب رواں برس اگست میں پارلیمان میں سیاسی جماعتیں ایک ساتھ بیٹھیں تو ان کے درمیان اختلافات کے نتیجے میں کشمیر پر پارلیمان کے اجلاس میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو سکی۔ |
یہ وہ چیزیں ہیں جو روزمرہ زندگی میں ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہم نے یہاں ایسی چھ چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیئر رکن شیری رحمٰن نے عمران خان کی تقریر کو پاکستان کی طرف سے عالمی برادری کو کشمیر پر ایک واضح موقف قرار دیا ہے۔ عمران خان کی تقریر کے بارے میں شیری رحمٰن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس بارے میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس بار پاکستان کے وزیرِ اعظم اپنا مؤقف سامنے رکھنے میں انڈیا کے وزیرِ اعظم سے کئی گُنا زیادہ کامیاب ہوئے ہیں۔ مودی کے پاس نہ تو کوئی دفاع تھا اور نہ ہی کوئی جواز تھا۔ مودی کا کہنا نہ کہنا کافی تھا۔‘ شیری رحمٰن نے کہا کہ ’میں تو یہ چاہتی کہ پوری تقریر ہی کشمیر پر ہوتی اور خاص کر کشمیر کی حقِ خود ارادیت کی بات ہونی چاہیے تھی، عمران خان موسمیاتی تبدیلی اور اسلاموفوبیا کو تقریر کے آخر کے لیے رکھتے کیونکہ کشمیر کی صورتحال انڈیا کی خود کھڑی کی ہوئی ہے، اور اس پر عالمی برادری کو خبردار کرنا ضروری ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انڈیا نے یہ نہیں سوچا ہو گا کہ بات اتنی آگے بڑھے گی اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ان کی گرفت سے بھی باہر ہے۔‘ |
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی برطانوی لیبر پارٹی کے لیڈر جیریمی کوربن سے بات ہوئی ہے اور انھوں نے کشمیر پر ایک واضح مؤقف دیا ہے۔ ’تو پاکستان تو یہ کرتا آ رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ اور اس کے لیے یہ تقریر کرنا ضروری تھی کیونکہ یہ پلیٹ فارم نہایت ہی اہم ہے۔ ایٹمی جنگ آپشن تو نہیں ہے لیکن اس وقت عالمی دنیا کسی بات پر ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔‘ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہر مظفرآباد میں لوگوں نے عمران خان کی تقریر کو اپنے گھروں کے علاوہ علاقے میں لگائی گئی بڑی سکرین پر بھی دیکھا۔ عمران خان نے حال ہی میں مظفرآباد میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران کہا کہ جو لوگ لائن آف کنٹرول جانا چاہتے ہیں وہ ان کی کال کا انتظار کریں۔ لیکن چند دن بعد عمران خان یہ بھی کہتے نظر آئے کہ ’جو بھی انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جہاد کے لیے جائے گا وہ کشمیریوں کو نقصان پہنچائے گا۔‘ اس بارے میں مظفرآباد کے رہائشی امیرالدین مغل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وزیرِ اعظم نے کشمیر کے معاملے پر خاصی تفصیلی گفتگو کی جو کہ ہمیں پسند آئی۔لیکن اگر وہ یہ بات بھی واضح کرتے کہ اگر انڈیا نے کرفیو نہیں اٹھایا تو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بہت سے لوگ لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے خواہشمند بھی ہیں جن کو میں روک کر آیا ہوں۔‘ تاہم یہ توقع بھی کی جارہی تھی کہ عمران خان کشمیر کے حقِ خود ارادیت پر بھی بات کریں گے۔ اس بارے میں مظفر آباد کے ایک رہائشی محمد ابرار نے کہا کہ ’جو حقِ ارادیت کو محدود معنوں میں لیا جاتا ہے اس بارے میں بھی بات کی جانی چاہیے تھی۔ مثال کے طور پر یہ پہلو کہ اگر کشمیری دونوں آپشن کے بجائے اگر کوئی تیسرا راستہ اختیار کرتے ہیں تو ان کو کرنے دیا جائے اس بارے میں بھی عمران خان صاحب کو زور دینا چاہیے تھا۔‘ |
عمران خان نے اپنی تقریر میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ریاستی جبر کی بات کی
|
جماعتِ اسلامی کے جنرل سیکرٹری امیر العظیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کی کشمیر کے حوالے سے تقریر کافی خوش آئیند ہے اور خاص کر یہ بات کہ انھوں نے کلمہ پڑھ کر اقوامِ متحدہ کو بتا دیا کہ کسی بھی صورت کشمیر پر سودے بازی نہیں کی جائے گی۔‘ لیکن انھوں نے کہا کہ ’اگر اس بات میں وہ عافیہ صدیقی کا بھی ذکر کرتے اور ان کی رہائی کے حوالے سے بات کرتے تو بہت اچھا ہوتا۔‘ لیکن جہاں اس تقریر کو سراہنے والوں کی تعداد زیادہ ہے وہیں چند لوگ ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ بات اب تقریروں سے آگے بڑھنی چاہیے۔ پرویز ہودبھائے نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو عمران خان کی تقریر میں یہ بات خاصی حیران کن لگی کہ انھوں نے اقوامِ متحدہ کے مبصرین کو برملا دعوت دی ہے کہ وہ آکر انڈیا کی طرف سے جہادی تنظیموں کے کیمپ ہونے کے دعووں کا خود معائنہ کر لیں۔ ’پاکستان میں جہادی تنظیموں کو سہارا دیا گیا ہے خاص کر جب وہ پاکستان کے شہروں میں جلسے جلوس کیا کرتے تھے۔ حزب المجاہدین کو چندے دیے گئے ہیں۔ یہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کھّلم کھّلا ہوتا تھا۔ اور اب بھی کہیں نہ کہیں اس کی مثال ملتی ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ پاکستان ان لوگوں کو اپنا دشمن سمجھے گا جو کشمیر جا کر جہاد کریں گے، یا اقوام ِ متحدہ کے مبصرین آکر مجاہدین کے کیمپوں کا دورہ کر لیں، تو یہ کسی یوٹرن سے کم نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ اسلامفوبیا کی بات وہ ممالک کرتے ہوئے اچھے لگتے ہیں جن کے اپنے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ مثالی سلوک ہو رہا ہو۔ ’لیکن یہاں ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو قانونی طور پر کئی کام کرنے سے روکا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں آپ کے ملک میں رہنے والے احمدی اور اہلِ تشیع خوفزدہ رہتے ہیں۔ ہندو، عیسائی اور سِکھ بھی اسی ماحول کا حصہ ہیں۔ تو اسلاموفوبیا کی بات تو اپنی جگہ ہے لیکن اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا بھی بہت ضروری ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’دونوں ملکوں کے پاس ایٹمی اسلحے ہیں اور اگر وہ استعمال ہوئے تو دونوں ملک تباہ ہوجائیں گے۔ تو عمران خان یہ بیشک بار بار کہیں کہ ایٹمی جنگ کا خطرہ ہے لیکن وہ خطرہ رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول ایک ایسی حد ہے جس کو نہ پاکستان بدل سکتا ہے اور نہ انڈیا۔ جب تک ہم اس بات کو قبول نہیں کریں گے، یہ معاملہ جوں کا توں رہے گا۔‘ |
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے نیویارک میں قیام کے دوران انھوں نے کئی اہم بین الاقوامی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ان میں سے ایک نام ایسے ارب پتی یہودی کا ہے جو دنیا بھر میں فلاحی کاموں کے لیے 32 ارب ڈالر عطیہ کرنے کے باوجود اپنے ملک سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں ایک ناپسندیدہ شخص تصور کیے جاتے ہیں۔
|
اطلاعات کے مطابق جارج سوروس نے عمران خان سے پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں تعاون فراہم کرنے کے علاوہ افغانستان میں اپنے تعلیمی منصوبوں پر بات کی۔ سرکاری ریڈیو پاکستان کے مطابق اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشنز کے وفد نے ٹیکس اصلاحات میں بھی پاکستان کی مدد کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اس ملاقات کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی کہ اوپن فاؤنڈیشنز کا ایک وفد بہت جلد پاکستان کا دورہ کرے گا۔ |
جارج سوروس کون ہیں؟ جارج سوروس دوسری جنگ عظیم سے قبل مشرقی یورپ کے ملک ہنگری میں پیدا ہوئے۔ وہ ان یہودیوں میں سے ہیں جو ہولوکاسٹ اور کیمونسٹ حکومت سے جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ 40 سال سے دنیا کے 120 ملکوں میں فلاحی کام کرنے والی تنظیم اوپن سوسائٹی فاونڈیشنز کے سربراہ ہیں۔ امریکہ سے آسٹریلیا تک اور ہنگری سے ہونڈورس تک جارج سوروس ایک متنازع شخصیت ہیں اور ان پر الزام ہے کہ وہ کسی بڑی عالمی سازش کا حصہ ہیں۔ امریکہ اور مغرب میں دائیں بازو کی قوتیں جارج سوروس کی مخالفت میں پیش پیش رہتے ہیں۔ |
ٹرمپ کے حامیوں کا جارج سوروس سے کیا رشتہ ہے؟ گذشتہ اکتوبر پیر کو سہ پہر کے وقت نیویارک کے سر سبز علاقے میں جارج سوروس کے وسیع و عریض محل نما گھر کے لیٹر باکس میں ایک پارسل موصول ہوتا ہے۔ یہ پارسل کچھ مشکوک دکھائی دیتا ہے۔ اس پر پارسل ارسال کرنے والے کا پتہ غلط ہجے کے ساتھ تحریر کیا گیا تھا۔ پولیس کو اطلاع دی گئی اور جلد ہی وہاں وفاقی تحقیقاتی ادارے کے اہلکار بھی پہنچ گئے۔ اس پارسل کے اندر جارج سوروس کی ایک تصویر تھی جس پر سرخ روشنائی سے کانٹا لگا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ چھ انچ پائپ کا ٹکڑا تھا، جس میں کالے رنگ کا سفوف، چند تاریں اور ایک گھڑی بھی تھی۔ اس طرح کے ایک درجن سے زیادہ پارسل سابق صدر براک اوباما اور سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن سمیت ڈیموکریٹک پارٹی کے کئی اور سرکردہ رہنماؤں کو بھی موصول ہوئے۔ ان پارسلوں میں سے کوئی بھی نہیں پھٹا۔ ایف بی آئی کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ فلوریڈا میں کھڑی ایک ویگن سے بھیجے گئے تھے جس پر ٹرمپ کے حق میں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے خلاف نعرے لکھے ہوئے تھے۔ فوری طور پر دائیں بازو کے ذرائع ابلاغ کے اداروں نے اسے ایک 'فالس فلیگ' کارروائی کہا۔ ان کا موقف تھا کہ اسے ڈونلڈ ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی کی صدارتی انتخابات کی مہم کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ |
امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کے ایک اینکر لو ڈابز نے ٹوئٹ کیا ’جھوٹی خبر، جھوٹے بم۔ اس سارے جھوٹ سے کس کو فائدہ ہو سکتا ہے۔‘ قدامت پسند خیالات کے حامی ریڈیو پر ایک میزبان رش لمباگ نے کہا کہ ریپبلکن ایسی حرکتیں نہیں کرتے۔ جلد ہی انٹرنیٹ پر ان خبروں کی بھر مار ہو گئی جن میں یہ الزامات عائد کیے گئے کہ جعلی بموں کے اس ڈرامے کے پیچھے کوئی اور نہیں خود جارج سوروس ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی اسے ایک کراہیت آمیز حرکت کہہ کر اس کی مذمت کی۔ اس کے بعد فلوریڈا سے ایک 56 سالہ شخص سیزر سیوک کو گرفتار کیا گیا۔ سازشی ذہنیت کے حامل لوگوں نے اس شخص کے بارے میں دعوی کیا کہ وہ اصل میں ریپبلکن نہیں تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ماضی میں کام کرنے والی خاتون لیوگ مارا نے کہا کہ سیزر سیوک جس وین میں پیزا ڈلیوری کا کام کرتے تھے اس پر ٹرمپ کے حق میں پوسٹر اور سٹیکر لگے ہوئے تھے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ پیزا لینے والوں میں جس کسی کے گھر پر ڈیموکریٹک پارٹی کا جھنڈا لگا ہوتا تھا تو سیزر سیوک اس سے بحث کرتے اور اسے ریپبلکن پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کرتے۔ |
ان کا کہنا تھا کہ سیزر سیوک کے نزدیک ہر بات ہی سازش تھی، یعنی ہر چیز کے پیچھے جارج سوروس ہیں اور انھوں نے پوری ڈیموکریٹک پارٹی کو خرید رکھا ہے جبکہ امریکہ میں جو کچھ بھی غلط ہو رہا تھا اس کے ذمہ دار جارج سوروس ہی ہیں۔ سیوک کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے علم ہوا ہے کہ جس دن جارج سوروس کے گھر سے پارسل بم برآمد ہوا اس دن سیوک نے اپنے سوشل میڈیا پر ایک میم لگائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ دنیا کو جارج سوروس کی تباہ کاریوں کا ادراک ہو رہا ہے۔ سیوک نے بعد میں 65 الزامات کا اعتراف کیا جس میں ارادۂ قتل بھی شامل تھا اور بعد میں انھیں 20 برس قید سزا سنائی گئی۔ ’بینک آف انگلینڈ کو کنگال کرنے والا شخص‘ برطانیہ میں جارج سوروس کی شہرت ایک ایسے شخص کے طور پر ہے جس نے بینک آف انگلینڈ کو سنہ 1992 میں کنگال کر دیا تھا۔ کرنسی کے دوسرے سٹے بازوں کے ساتھ ملکر سوروس نے پونڈ لے کر انھیں مارکیٹ میں فروخت کر دیا جس سے پونڈ کی قدر میں شدید کمی واقع ہوئی اور برطانیہ کو پورپی ایکسچینج نظام سے نکلنا پڑا۔ اس سارے معاملے میں سوروس نے ایک ارب ڈالر کمائے۔ اس شخص نے کرنسی کی سٹے بازی میں ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر 44 ارب ڈالر کمائے۔ |
صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اگست 2017 میں نیو نازیوں نے ورجینیا کے علاقے میں ایک مشعل بردار جلوس نکالا۔ اس جلوس کے دوران مخالفین کے ایک گروہ سے ان کا تصادم ہو گیا جس پر سفید فام شدت پسند نے ہجوم پر گاڑی چڑھا دی جس میں ایک 32 سالہ خاتون ہلاک ہو گئیں۔ دائیں بازو کے مبصروں نے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ یہ بھی جارج سوروس کی سازش تھی تاکہ صدر ٹرمپ کی حکومت کو بدنام کیا جاسکے۔ انھوں نے کہا کہ اس ساری سازش کا اہم کردار برینن گلمور تھے جنھوں نے ہجوم پر گاڑی چڑھانے کی ساری ویڈیو بنائی۔ دائیں بازو کے ایک ریڈیو نے دعویٰ کیا کہ سوروس نے گلمور کو تین لاکھ 20 ہزار ڈالر دیے۔ کیا صدر ٹرمپ جارج سوروس کے مخالف ہیں؟ یہ درست ہے کہ جارج سوروس نے پانچ لاکھ ڈالر ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار ٹوم پریلو کو دیے تھے جن کے لیے گلمور بھی کام کر رہے تھے۔ لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ سوروس یا ان کی اوپن سوسائٹی فاونڈیش نے گلمور کو کوئی رقم دی تھی۔ گلمور نے اب اس ریڈیو کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے۔ |
گذشتہ موسمِ خزاں میں ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن نے جنوبی امریکہ کے ملک ہونڈورس سے امریکہ کی طرف پیدل ہجرت شروع کر دی۔ یہ ہجرت امریکہ میں نصف مدتی انتخابات سے ایک ماہ پہلے شروع ہوئی۔ اس ہجرت کو بھی سوروس کی ایک سازش قرار دیا جانے لگا۔ فاکس نیوز نے یہ دعویٰ کیا کہ سوروس آزاد سرحدوں اور بلا روک ٹوٹ نقل مکانی کے حامی ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کے ایک سابق رکن جیک کنگسٹن نے کہا کہ یہ ایک منظم ہجرت ہے اور اس کے پیچھے پیسہ کارفرما ہے اور سوروس ہی اس طرح کی سازش کے پیچھے ہوسکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو جاری کی جس میں دیکھا گیا کہ ہنڈورس میں لوگوں کو پیسے بانٹے جا رہے ہیں جس میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ پیسہ جارج سوروس نے فراہم کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے جب وائٹ ہاؤس کے سامنے سوال کیا گیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ پیسہ واقعی جارج سوروس نے دیا تھا تو انھوں نے کہا کہ یہ میرے لیے کوئی حیران کن بات نہیں ہو گی، بہت سے لوگ یہی کہتے ہیں۔ |
بعد میں یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ یہ ویڈیو جعلی تھی اور یہ ہونڈورس کی نہیں تھی۔ سفید فام شدت پسندوں کے یہودیوں پر حملے 27 اکتوبر سنہ 2018 میں تارکینِ وطن کو پیسہ دینے کی سازشی کہانی سامنے آنے کے 11 دن بعد اور پائپ بم کے پیکیچ ارسال کیے جانے کے واقعے کے پانچ دن بعد ایک سفید فام بندوق بردار شخص نے پٹسبرگ میں یہودیوں کی ایک عبادت گاہ میں گھس کر 11 افراد کو ہلاک کر دیا۔ یہ امریکہ کی تاریخ میں یہودی کے خلاف تشدد کا بدترین واقعہ تھا اور یہ ایک ایسے شخص نے کیا تھا جو سوروس کی نفرت میں مبتلا تھا۔ سوشل میڈیا پر جاری پیغامات سے معلوم ہوا کہ یہودی عبادت گاہ پر حملہ کرنے والے رابرٹ بوئرز اس سازشی مفروضے پر یقین رکھتے تھے کہ سفید فاموں کو ختم کرنے کے لیے سازش کی جارہی ہے جس کے ماسٹر مائنڈ جارج سوروس ہیں۔ اس تھیوری کے مطابق سفید فام لوگوں کی اکثریت ختم کرنے کے لیے تارکینِ وطن کو لایا جا رہا ہے۔ اس لیے نیو نازی اس طرح یہ نعرے لگاتے ہیں کہ یہودی ہماری جگہ نہیں لے سکتے۔ |
نیٹ ورک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جیول فنکل سٹین نے سوشل میڈیا پر ایک ایسا پیغام ڈھونڈ نکالا جس میں بوئرز جارج سوروس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ یہودی سفید فاموں کے قتل عام کے لیے پیسہ فراہم کر رہے ہیں اور یہ ذرائع ابلاغ کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔ اس پوسٹ میں مزید یہ کہا گیا تھا کہ جارج سوروس امریکہ میں ہتھیاروں کی روک تھام اور آزاد سرحدوں کے لیے بھی زور لگا رہے ہیں۔ فنکل سٹین نے، جنھیں اوپن سوسائٹی فاونڈیشن کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی، اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بوئرز جیسے سفید فام شدت پسند تمام سازشوں کے پیچھے سوروس کا ہاتھ دیکھتے ہیں۔ ان کے بقول وہ اپنی تمام پُرتشدد کارروائیوں کو جائز قرار دینے کے لیے سوروس کو ایک بدی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ |
جارج سوروس دیگر ممالک میں کیوں بدنام؟ جارج سوروس کی لعنت ملامت صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ اس کا سلسلہ آرمینیا، آسٹریلیا، ہونڈورس، فلپائن اور روس تک پھیلا ہوا ہے۔ ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوغان نے سوروس کو ایک یہودی سازش کا مرکزی کردار قرار دیا جو ترکی اور کئی دوسرے ملکوں کو تقسیم اور غیر مستحکم کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ اٹلی کے نائب وزیر اعظم میتو سیلوینی نے سوروس پر الزام لگایا کہ وہ اٹلی کو تارکین وطن سے بھرنا چاہتے ہیں کیونکہ انھیں غلام بہت پسند ہیں۔ برطانیہ میں بریگزٹ پارٹی کے لیڈر نائجل فراج نے دعویٰ کیا کہ سوروس چاہتے ہیں کہ یورپ میں تارکینِ وطن کا سیلاب آ جائے جو پوری مغربی دنیا کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ لیکن ایک ملک جہاں سوروس پیدا ہوئے وہاں ان کی مخالفت سب سے زیادہ ہے۔ جنوبی مشرقی ایشیا سے لے کر جنوبی امریکہ تک کئی ممالک جارج سوروس پر کرنسی کی سٹے بازی سے ان ملکوں کی معیشت تباہ کرنے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ جارج سوروس کی اوپن سوسائٹی فاونڈیشن ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ لاکھوں ڈالر جمہوریت، تعلیم اور انسانی حقوق کے اعلیٰ مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔
Follow me on other social
media accounts\_
► Email➜ infohelpline.desk@gmail.com
|
Display 6.2" |
Battery 4000 mAh |
Camera 13 MP + 8 MP + 2 MP |
Storage 32GB 3GB RAM, 64GB 6GB RAM |